29-Mar-2022 احمدعلوی میرے پسندیدہ شاعر بشیر بدر
احمدعلوی میرے پسندیدہ شاعر : بشیر بدر
احمدعلوی غزل کے ان شاعروں میں ہیں جن کو پڑھ کر میں اپنے اندر توانائی محسوس کرتا ہوں. ہمیشہ کی طرح آج بھی پوری زندگی کا کوئی تجربہ غزل کا شعری تجربہ بن سکتا ہے. پوری زندگی سے مراد عشقیہ اور غیر عشقیہ دونوں ہی ہے. حسن عشق رومان کے بغیر زندگی کیا اور زندگی کے بغیر حسن عشق اور رومان کیا انہیں دونوں کی اکائی کی تہذیب غزل ہے.
غزل اور تغزل کے جسم و جاں میں ایسا کیا چھپا ہوا ہے جو اس سے الگ کر دیا جائے تو غزل بے جان سی ہو جاتی ہے. لیکن وہی کیا کچھ غزل میں غالب عنصر ہو جائے تو غزل غزل ہو جاتی ہے.
انشا اللہ خاں انشا اعلیٰ غزل کے جذبوں سے لبریز تھے،اور ان غزلیہ اظہار انسانی درد مندی کو کتنی سچائی کے ساتھ لفظوں کے آبگینے میں محفوظ کرنے کا ہنر جانتا تھا جب وہ ایسی لازوال غزل اردو ادب کو دے سکے.
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
لیکن جب انشا اپنی بے پناہ ذہانتوں کو غزل میں مہذب نہیں کر سکے تو ان کی شاعری ادبی چھیڑ چھاڑ اور لطیفہ گوئی کی نذر ہو گئی.
ناسخ کا کمال زبان غزل کے پرندے کے پروں کا پتھر بن گیا مرزا غالب پر فارسی دانی اور تخئیلی پیچید کاری نے کمند ڈال دی تھی لیکن زندگی انہیں بچا لے گئی. مولانا حالی جن کی بوند بوند سرسید کی محبت میں مسلمانوں کی زبوں حالی پر آنسو بن کر پلکوں پر لرز رہی تھی غزل میں ماضی کا مرثیہ اور عصری بد حالی کا نوحہ بن کر رہ گئی.
ہمارے عہد کے آس پاس ترقی پسند شاعروں کی اکثریت مظلوم کی آواز تھی جو سرمائے داری کے جبر و استبداد کے خلاف لفظوں کو تیغ آبدار کی آب و تاب دینا چاہتی تھی لیکن مقصدیت کی اعلیٰ انسانی قدر بہت کم شعروں میں غزل کی جاوداں آواز بن سکی.
احمدعلوی اس نئی نسل کے نمائندہ اور میرے پسندیدہ غزل کے شاعر ہیں مجھے شروع سے ان کے یہاں تازگی کا احساس ہوتا تھا اور ان کی نئی نئی غزل امکانات سے بھرپور نظر آتی تھی. ان کی خاصی غزل میں بقول ان کے جدید تر( ہزلیہ ) ہوجاتے تھے. وہ شروع سے مجھ سے محبت کرتے ہیں لیکن محبت کے معنی واقعی یہ کہاں ہیں کہ جس سے محبت کی جائے اس کی جا بے جا ہر بات مان لی جائے. تغزل کی تہذیبی تہہ داری سے بھرپور زندگی کے حسن اور رومان سے لبریز نئے اظہار کے کھلتے ہوئے پھولوں کی طرح کئی شعروں کے درمیان ان کے اکہری جدیدیت لئے کئی شعر نظر آتے تھے. میں جب بھی ان کی طرف اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کرتا تو وہ اپنے اس ہزلیہ اور بے پتہ شعروں سے زیادہ میرے کئی شعر میرے مجموعوں امیج اور اکائی سے نکال لاتے تھے.
کبھی کبھی مجھے یاد آجاتا تھا کہ یہ ناکام شعر جنہیں میں ہزل کے خانے میں ڈال رہا ہوں کسی مخصوص لہجے کی کیسی انوکھی سچائی تھے اور میرا دماغ چاہتا تھا کہ میں اب شعروں کا پس منظر اور ان کی تخلیق کا سبب اور تمہید بیان کروں لیکن واقعہ یہ ہے کہ احساس اور تجربہ کتنا ہی سچا اور وقیع کیوں نہ ہو جب تک اسے آداب و اظہار غزل کی خارجی اور حسن نہیں ملے گا بالآخر وہ شعر ناکام اور کمزور رہے گا.
دو چار بار وہ میری باتوں پر بہت مشکوک رہے احمد علوی بنیادی طور پر شاعرانہ احساس سے تازہ کار ہیں اور ان کے پاس وہ تمام خوبیاں قدرت کی عطا کردہ ہیں جن کے بغیر غزل کا اعلیٰ شاعر ہونا ناممکن ہے. مجھے مدتوں بعد ان سارا کلام یکجا دیکھنے کا موقع ملا میں نے اب ان سے کوئی بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ وہ ایک سچے شاعر کی طرح غزل کے آئینے میں خود کو پوری طرح سنوار چکے ہیں.
آج وہ نئی سے نئی بات کو منفرد اور عصری احساس کو جس طرح غزل بنا لیتے ہیں وہ میرے اس یقین کو مضبوط کرتے ہیں کہ عظیم اور قدیم غزل کی تمام متغزلانہ خوبیوں کی وارث اور امین ہے. اور اس کے کچھ تجربات اور احساسات اور طرزِ اظہار پرانی غزل سے بالکل مختلف ہیں.
احمدعلوی کی غزلوں میں ایسے بے شمار اشعار ہیں جن کی تخلیقی تشریح اچھی عملی تنقید کا نمونہ بن سکتی ہے. احمد علوی کے کتنے ہی شعر ذہین قاری کے ذہنوں میں محفوظ ہیں اچھے شعر کی سب عمدہ تعریف یہی ہے کہ کہ جسے سنتے یا پڑھتے ہی حافظہ محفوظ کرکے.
دل کو کسی کی یاد سے خالی نہ کیجئے
آسیب رہنے لگتے ہیں خالی مکان میں
تعلقات بھی ریشم کی طرح ہوتے ہیں
الجھ گئے تو سرا عمر بھر نہیں ملتا
خوشبو گلاب چاندنی باد صبا بھی ہے
ملنے سے پہلے سوچ لو وہ بے وفا بھی ہے
محبتوں میں تو کچھ بھی پتہ نہیں لگتا
بہت برا ہے وہ لیکن برا نہیں لگتا
دشمنی کی ضرورت جو محسوس ہو
دوستی اپنی اتنی پرانی نہیں
نہ آنسوئوں سے اسے کوئی خط کبھی لکھنا
لہو لہو ہے اسے روشنائی مت کرنا
گھر کی چھت بارشوں میں ٹپکے گی
اب کھلے آسمان ہی میں رہو
کوئی سورج سے نہیں آنکھ ملانے والا
ہر کوئی میرے چراغوں کو ہوا دیتا ہے
ایک پل نہ ٹھیریں گے دوستی وفا چاہت
تم یہ اوس کے قطرے آنچ پر اگر رکھ دو
ایسے اور بہت سارے شعر یہاں لکھے جا سکتے ہیں لیکن ان شعروں سے احمد علوی کی غزلیہ شاعری کے کینوس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے.
بشیر بدر
1990